Orhan

Add To collaction

اممیدنو کا روشن سوےر

" ہا ہا ہا حویلی سے میں نہیں آپ کونکلنا ہو گا بابا سائیں کیونکہ یہ حویلی میرے نام ہے بابا سائیں آپ شاید بھول رہے ہیں آپ نے خود ہی پچھلے سال اسے میرے نام کیا تھا اور اب گدی نشین بھی مجھے ہی رواج کے مطابق ہونا ہو گا۔" شاہ خاور نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوے بڑے زعم سے کہا۔

یہ سب سن کر شاہ عالم بے یقینی سے اپنے بیٹے کی طرف دیکھنے لگے جن کے عیوب پر انہوں نے ہمیشہ آنکھیں بند کر رکھی تھیں اس کی ہر برائی اور غلطی پر پردہ ڈالا تھا اور آج وہ بیٹا انہیں گھر سے نکلنے کا حکم دے رہا تھا۔

سینے میں بائیں طرف ان کے اچانک درد اٹھا تھا پھر وہ بیٹھتے چلے گئے بی بی جان ان کی درد بھری چیخ سن کر باہرآئیں تو اپنے سر کے سائیں کو زمین پر اوندھے پڑے دیکھا۔

"سائیں سائیں کیا ہوا آپ کو؟ اٹھیں سائیں ارے بشیراں، نذیراں، جلدی دیکھو تمہارے بابا کو کیا ہو گیا ہے اللہ سا ئیں ، میرے سر کے سائیں کو سلامت رکھنا۔‘‘ پوری حویلی میں بھونچال آ گیا تھا، شاہ خاور وہاں سے پاؤں کی دھمک کے ساتھ جا چکا تھا پھر مہرو کا بڑی کوششوں کے بعد شاه بخت کے ساته رابطه ممکن ہوا یہ بھیانک خبر سن کر شاه بخت فورا ہی گاؤں کی طرف روانہ ہوا اور پھر بابا سائیں کو شہر کے مشہور ہاسپٹل میں ایڈمٹ کروایا انہیں میجر ہارٹ ہوا تھا۔

رات دن کی انتھک محنت اور اور بی جان کی دعاؤں سے بابا سائیں اب خطرے سے باہر تھے اس موقع پر نبیل نے اس کا بہت ساتھ دیا تھا نور بھی دو بار اس کے بابا کو دیکھنے آ چکی تھی ، بابا سائیں اس لڑکی کے رکھ رکھاؤ اور انداز گفتگوسے بہت متاثر ہوئے تھے اب انہیں آپ اندازہ ہو گیا تھا کہ تعلیم انسان کو سنوارتی ہے اگر انہوں نے شاہ خاور کی تعلیم پر بھی توجہ دی ہوتی اور اس کی ہر بے جا خواہش کو ماننے کی بجائے تھوڑی سختی سے کام لیا ہوتا تو آج شاہ خاور کی شخصیت اتنی نا مکمل اور مسخ زدہ نہیں ہوتی ، آج بابا کو ڈسچارج کیا جانا تھا نور اپنے بابا کے ساتھ ان سے ملنے ہاسپٹل آئی تھی' اس کا سامنا کوریڈور میں ہی شاہ بخت سے ہو گیا تھا ان کربناک لمحات میں اس لڑکی نے اسے بہت اخلاقی سہارا دیا تھا جس کی وجہ سے وہ اس کا دل سے مشکور تھا۔ وہ ان دونوں سے باتیں کرتا ہوا بابا کے کمرے میں پہنچا بابا دوسری طرف کروٹ کیے سورہے تھے۔

" بابا سائیں دیکھیں آپ سے نور آج اپنے بابا کے ساتھ ملنے آئی ہیں۔" جیسے ہی انہوں نے کروٹ بدلی تو نور کے بابا پر نظر پڑتے ہی ان کی

آنکھیں گویا پتھر کی ہوگئیں یہی حال نور کے بابا کا تھا۔

"انکل یہ میرے بابا سائیں ہیں اور بابا سائیں یہ۔۔۔۔۔۔۔۔" شاہ بخت کی نظرنور کے بابا پر پڑی جن کا چہرا غم و رنج کی کیفیت سے زرد ہورہا تھا۔

" انکل آریو او کے، آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے۔ "اتنے میں نور بھی قریب آ چکی تھی۔

" بابا، بابا کیا ہوا؟ پلیز شاه بخت کیا پانی ملے گا؟" - نور کے بابا نے دونوں کی طرف چونک کر دیکھا تھا اور اپنی اندرونی کیفیت پر قابو پاتے ہوۓ شاہ بخت کو ہاتھ کے اشارے سے روکا۔

   2
2 Comments

Abraham

08-Jan-2022 11:26 AM

Good

Reply

fiza Tanvi

15-Dec-2021 07:35 PM

Good

Reply